عہد صدیقی کی قربانیاں اور تحفظ ختم نبوت

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
تمہید:
ہر چیز کی ابتداء اور انتہا ہے، سوائے خدائے واحد کی ذات کے۔ اللہ تعالی نے دنیا میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے وقتا فوقتا تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ اس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے اور انتہا نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر ہوئی۔
یوم تحفظ ختم نبوت
اسلام کے عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء کا سلسلہ اور نبوت تمام ہوچکی ہے۔ محمد ﷺ ہی اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں یعنی خاتم النبیین ہیں۔ خاتم النبیین کے حقوق میں سب سے پہلا حق ہی یہ ہے کہ نبی عربی محمد ﷺ اللہ کا نبی و رسول اور خاتم النبیین ﷺ مانا جائے کہ نبوت کا سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے، اس کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر​
ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
اس ضمن میں سب سے پہلے نبوت اور ختم نبوت کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔
نبی کون ہوتا ہے؟
اللہ تعالی کا وہ منتخب بندہ جو انسانوں تک اللہ تعالی کے احکام پہنچائے، اسے نبی کہتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے:
اَللّٰهُ اَعۡلَمُ حَيۡثُ يَجۡعَلُ رِسٰلَـتَهٗ۔
ترجمہ:
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے۔(سورۃ الانعام:124)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کوئی شخص اپنی کوشش، عبادت، ریاضت اور مجاہدہ سے نبی نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ نبوت کوئی کسبی شے نہیں ہے۔
عقیدہ ختم نبوت:
عقیدہ ختم نبوت سے مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ ہی اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی اور نبی پیدا نہیں ہوگا۔ امام مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی نبی اکرم ﷺ کی شریعت کو ہی نافذ کریں گے۔
لا نبی بعدی زاحسانِ خدا است
پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیﷺ است
ختم نبوت قرآن و حدیث میں:
قرآن مجید کی کم از کم سو آیات اور دو سو احادیث مبارکہ سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہوتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔
ترجمہ:
(مسلمانو!) محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: 40)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑجاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (صحیح بخاری:3535)
عہد صدیقی کا سب سے پہلا اجماع:
عہد صدیقی میں سب سے پہلا اجماع اس بات پر منعقد ہوا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم فریضہ ہے، محمد مصطفی ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے ہر شخص کاذب و کافر ہے اور امت مسلمہ پر اس کے خلاف جہاد فرض ہے۔
عہد صدیقی کے مدعیان نبوت اور ان کا سد باب:
آپﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوگئے تھے۔ مگر یہ آواز اس وقت اس قدر آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ آپﷺ کی وفات کی خبر سنتے ہی مدعیان نبوت اپنے ناپاک ارادے لے کر آگے بڑھے اور چالیس ہزار کی ایک جماعت ان مدعیان نبوت کے پیچھے چلنے لگی۔ اس خبر کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ  کو ملت اسلامیہ خطرے میں نظر آرہی تھی، دشمنوں کی سازشیں مزید پختہ ہوگئیں تھیں۔ آپؓ نے اپنی ذہانت سے ان کا سد باب کیا۔ اور صرف ایک سال کے عرصے میں ان تمام فتنوں سے نمٹنے کی کوشش کی۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے تحفظ ختم نبوت کی خاطر گیارہ لشکر ان تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیے اور باقی صحابہ کرامؓ کو ان فتنوں کو ختم کرنے کے لیے کمر کسنے کا حکم دیا۔ اس تحفظ کی خاطر صحابہ کرامؓ کا جوش و جذبہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ اس کے نتیجے میں تمام مدعیان نبوت کا انجام یہ ہوا کہ ان کافروں کو قتل کردیا گیا یا انہوں نے خود کشی کرلی یا پھر وہ توبہ تائب ہوکر واپس دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ علامہ اقبالؒ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح ایک شعر میں بیان کیا ہے:
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
عہد صدیقی کے مدعیان نبوت:
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں تین مردوں اور ایک عورت نے نبوت کا دعوی کیا۔ جن کے نام یہ ہیں:
طلیحہ، اسود عنسی، سجاح، مسیلمہ کذاب۔
طلیحہ:
طلیحہ بن خویلد اسدی بنو اسد بن خزیمہ میں سے تھا۔ یہ شخص کاہن تھا۔ اس نے آپ ﷺ کی مرض الوفات کی خبر سن کر نبوت کا دعوی کیا تھا اور بنی اسرائیل کے کئی فرقے اس کے تابع ہوچکے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کی سرکوبی کے لیے ایک مہم روانہ کی، مگر اسی دوران رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر پھیل گئی۔ اس خبر کی وجہ سے طلیحہ کو اپنے ناپاک ارادوں میں آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ اس کے مطیع مدینہ کی حکومت سے بھی انکار کرنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس کے خاتمے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مقابلے کے لیے بھیجا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے طلیحہ کے پیروکاروں سے قتال کیا، تیس افراد گرفتار ہوئے۔ ان سب کو گرفتار کرکے خلیفہ اول کے پاس مدینہ بھیج دیا۔ اس طرح طلیحہ کو شکست ہوئی اور وہ شام کی طرف بھاگ نکلا اور کچھ عرصے بعد دوبارہ اسلام قبول کرلیا۔
اسود عنسی:
یہ یمن کا باشندہ تھا اور کاہن تھا۔ اس فتنے نے بھی نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی سر اٹھایا۔ نبی ﷺ کی وفات کے بعد اس نے لوگوں کو اپنے گمراہ کن خیالات سے اپنی طرف مائل کرکے قوت و طاقت میں اضافہ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس کے خلاف کارروائی کی مگر اس کی جماعت میں خود اختلاف پیدا ہوگیا اور اسی جماعتی اختلاف میں وہ مارا گیا۔
سجاح:
سجاح نامی عورت دراصل بنو تمیم کی شاخ "بنی ربوع" سے تعلق رکھتی تھی۔ اس نے نبی اکرم ﷺ کی وفات کی خبر سن کر اپنے دعوے کو مضبوط کرنے کے لیے مسیلمہ کذاب سے شادی کی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ بنو تمیم میں نبوت کا اعلان کرکے ایمان لانے کی دعوت دے گی۔ پھر اپنے ماننے والوں کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کرکے یہاں قبضہ جمالے گی۔ مگر حضرت خالد بن ولیدؓ کے لشکر سے اس کا سامنا ہوگیا، اس کی جماعت بکھر گئی اور اس نے ایک جزیرے میں پناہ لی۔ بعد میں تجدید اسلام کرکے ایمان لائی۔
مسیلمہ کذاب:
مسیلمہ بن حبیب دور صدیقی میں نبوت کا چوتھا دعویدار تھا۔ اس نے یہ فتنہ اتنا بڑھا دیا تھا کہ چالیس ہزار کی جماعت تیار کرلی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے گیارہ لشکر میں سے ایک لشکر حضرت عکرمہؓ کو دے کر یمامہ کی جانب روانہ کیا۔ ان کے پیچھے شرحبیلؓ کو بھی مدد کے لیے بھیجا۔ مگر عکرمہؓ نے شرحبیلؓ کے پہنچنے سے پہلے بنو حنیفہ پر حملہ کردیا، اس طرح انہیں شکست ہوگئی۔ پھر شرحبیلؓ نے بھی پہنچتے ہی قتال کیا، انہیں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جب یہ خبر خلیفہ وقت کو پہنچی تو انہوں نے فورا حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دے کر مسیلمہ کذاب سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ یہاں تک کہ اس سلسلے میں سب سے بڑی جنگ، "جنگ یمامہ" ہوئی۔ اس جنگ میں ستر حفاظ کرام شہید ہوئے، باقیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ تقریبا اکیس ہزار بنو حنیفہ کے لوگ قتل ہوئے اور مسلمانوں میں شہداء کی تعداد ایک ہزار تھی، جن میں کثرت سے حفاظ کرام شامل تھے۔
یومِ تحفظ ختم نبوت:
ختم نبوت پر دور نبوی ﷺ سے ہی ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ دو سو سال کے عرصے میں جتنے مدعیان نبوت کے فتنے سامنے آئے۔ اتنے فتنے بارہ سو سال میں بھی کھڑے نہیں ہوئے۔ دور حاضر کا فتنہ قادیانیت یا احمدیت ہے۔ اس سلسلے میں کئی تحریکیں چلائی جاتی رہیں۔ جن میں اہم تحریکیں تین ہیں۔ 1953، 1974، اور 1984۔ ان ہی تحریکوں کی ایک کڑی میں 7 ستمبر 1974 کو آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 260 شق نمبر 3 کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس طرح یہ دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اب پاکستان کے مسلمان 7 ستمبر کے دن یوم تحفظ ختم نبوت منا کر اس دن کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
تحفظ ختم نبوت ،جہاد بالقلم اور اکابرین کی خدمات و اقوال:
اسی طرح ختم نبوت کے لیے ہر طرح سے جہاد کیا جاتا رہا ہے۔ قلمی جہاد کا یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد صفحات اردو زبان میں صرف مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف لکھے گئے ہیں۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں:
"حضور ﷺ کی عزت پر بات ہو اور حضور ﷺ کی امت خاموش رہے تو وہ امت اجتماعی طور پر مرجائے اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔"
ناموس محمد عربی ﷺ پر ہم جان نچھاور کردیں گے
گر وقت نے ہم سے خون مانگا، ہم وقت کا دامن بھردیں گے
مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ فرماتے ہیں:
"اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے۔"
نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحا خاتم النبیین کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
دور حاضر میں فتنہ قادیانیت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ معصوم مسلمانوں کو مختلف طرح سے ورغلانے میں لگے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اپنے پنجے گاڑنا چاہتے ہیں۔ اس کے ہیش نظر رد قادیانیت کے سلسلے میں مولانا محمد علی مونگیری فرماتے ہیں:
"فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لیے اتنا لکھو، اتنا طبع کراؤ اور اتنا تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب سو کر اٹھے تو اس کے سرہانے رد قادیانیت کی کتاب موجود ہو۔"
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم  محمد ﷺ سے اجالا کردے
مرزائیت کے کردار کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو جواب دیا:
"میں اپنے ذہن میں اس امر سے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ قادیانی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔"
امت محمدیہ اور کذاب کی تعداد:
ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس (٣٠) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے۔ (سنن ابی داؤد: 4252)
حدیث مبارکہ کے مطابق امت محمدیہ میں 30 کذاب آئیں گے، اور اب تک تقریبا 23 کذاب نبوت کا دعوی کرچکے ہیں۔ اور یہ گنتی صرف ان کی ہے، جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبوت کا دعوی کیا اور توبہ نہیں کی، بالآخر اللہ تعالی نے ان کو ہلاک کردیا۔ ان کے نام یہ ہیں:
مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، حارث دمشقی، مغیرہ بن سعید، بیان بن سمعان، صالح بن طریف برغواطی، اسحاق اخرس، استاد سیس، علی بن محمد خارجی، حمدان بن اشعث قرمطی، علی بن فضل یمنی، حامیم بن من اللہ، عبد العزیز باسندی، ابو القاسم احمد بن قسی، عبد الحق بن سبعین مرسی، بایزید روشن جالندھری، میر محمد حسین مشہدی، سید علی محمد باب، بہاء اللہ،مرزا غلام احمد قادیانی، محمود پسی خانی گیلانی، ریاض احمد گوہر شاہی، یوسف کذاب، احمد عیسی.
آئیے! ہم عزم کریں کہ حرمت رسول ﷺ پر جو بھی غلط قدم اٹھائے گا ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ ہم سے جو بن پڑا ہم کریں گے۔ ہم اپنے رسول ﷺ کی ناموس کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کریں گے۔ کیوں کہ کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کو اپنی جان، اپنے والدین، اپنی اولاد، اپنے مال اور اپنی ہر چیز سے بھی زیادہ محبوب نہ سمجھ لے۔ (صحیح بخاری:15)
محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایمان نامکمل ہے
ختم شد
مراجع ومصادر
ختم نبوت کورس 30 اسباق از مفتی مصطفی۔
شعور ختم نبوت اور فتنہ مرزائیت، ختم نبوت کوئز(  عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)۔
اسلامی تاریخ از امتیاز پراچہ۔
کمانڈر صحابہ از علامہ محمد شعیب چشتی۔
تاریخ اسلام (حصہ اول) از مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی۔
ختم الرسل 63 قلم کاروں کا ہدیہ عقیدت  (مؤلفین یاسین صدیق، بابر الیاس)۔
اسلامیات لازمی از پروفیسر مفتی منیب الرحمان۔

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی