ذرا نم ہو تو یہ مٹی

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
الٰہی رحم اب کیا دیر ہے تنزیل رحمت میں 
مدد فرما مدد کا وقت ہے ہم ہیں مصیبت میں
اللہ تعالی نے انسان کو زندگی کے موڑ پر مختلف طرح سے آزمانے کا ذکر کیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ
ترجمہ:
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ (سورۃ البقرۃ:155)
پاکستان میں مون سون بارشوں کا سلسلہ چلا تو بہت طویل ہوگیا۔ مسلسل دو ماہ طوفانی بارشوں سے کئی گھر تباہ ہوئے۔ آسمان تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ زمین بھی اپنے اندر آخر کتنا پانی جذب کرتی؟ جب یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا تو پاکستان کی عوام رفتہ رفتہ اس مصیبت میں مبتلا ہوتی گئی۔ اس آزمائش کی گھڑی میں کئی لوگ بے سہارا اور بے یارومددگار ہوگئے۔ بھوک و پیاس کی شدت میں لوگ ہر طرف پانی ہی پانی دیکھ رہے تھے مگر وہ پانی پینے کے قابل نہ تھا۔
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا 
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا 
امراء و حکمران اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہے مگر عوام اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی تو کئی لوگ سیلاب کے زیر اثر آگئے، اور سڑک پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ کئی لوگ اپنی اولاد سے بچھڑ گئے تو کسی ننھی جان کے والدین لاپتہ ہوگئے یا پھر خالق حقیقی سے جاملے۔ رونگھٹے اس وقت کھڑے ہوئے جب ایک معصوم سے دو سالہ بچے سے پوچھا گیا کہ "آپ کی امی کہاں ہیں"؟ جوابا اس نے مسکراتے ہوئے کہا: "وہ مرگئی"۔ اس ننھی سے جان کو کیا پتہ مرنا کیا ہوتا ہے اور اسے یتیمی کی حالت میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟
کہا جانے لگا تھا کہ انسانیت مرچکی ہے، لوگ افراتفری کی زندگی گزار رہے ہیں اور کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔ لیکن جب اس طرح اپنے وطن کے لوگوں کا برا حال دیکھا تو امدادی کیمپ کے ذریعے لوگوں کی مدد کی گئی۔ جبھی تو اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے 
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 
مدارس کے علماء و طلباء نے امدادی کاموں میں پہل کی، متاثرہ خاندانوں کو کھانے اور پینے کا سامان مہیا کیا۔ مرکز الحریم نے جب مدد کے لیے مہم چلائی تو خواتین نے اپنی الماریوں سے نئے کپڑے بھی نکال کر دینا شروع کیے۔ صالحات نے اسے خوب صورتی سے سجایا، دل جوئی کے لیے چند کلمات بھی تحائف کے ساتھ لکھ کر بھجوائے۔ بڑے تو بڑے بچے بھی اپنی جمع پونجی نکال کر دینے لگے۔ انسانیت زندہ ہے یہ دیکھنے کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ غبارہ بیچنے والے، سگنل پر کھڑے ہوکر شیشے صاف کرنے والے بچوں نے بھی اپنی محنت کی چند رقم سیلاب زدگان کی نذر کردی۔
سیلاب زدگان کی بحالی
ایک مولانا کا اپنا گھر گر گیا تھا مگر وہ دوسروں کی مدد کے لیے دن رات محنت کررہے تھے، یہاں تک کہ کچھ رقم ان کے اہل خانہ کے لیے دی گئی تو وہ بھی انہوں نے دوسروں کی مدد کے لیے خرچ کردی۔
بڑھ کے طوفاں میں سہارا موج طوفاں کیوں نہ دے 
میری کشتی کا خدا ہے نا خدا کوئی نہیں 
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانیؒ نے سو گھر تعمیر کرنے کا عہد کیا۔ ایک مدرسے کی معلمہ نے دس سال سے کم عمر کے بچوں کو اپنی نگرانی میں خوراک و رہائش کے ساتھ تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست کیا۔ کئی لوگوں نے سیلاب کے پانی میں سے لاشیں نکالیں، اس وقت انہیں اپنی پرواہ نہیں تھی بلکہ وہ محسن انسانیت ﷺ کے سکھائے ہوئے سبق پر عمل پیرا تھے۔
موٹیویشنل اسپیکر ذیشان عثمانی نے دس چھوٹے بچوں کو اپنے گھر پر رہائش دینے اور ان کی تمام ضروریات پورا کرنے کا اس وقت تک عہد کیا، جب تک وہ بچے بڑے ہوکر اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوجائیں۔
فیتھ فاؤنڈیشن، فقہ اکیڈمی، علم و عمل، سعاد آن ائن اکیڈمی، مرکز الحریم، جامعہ امدادیہ فیصل آباد، الخدمت، جے ڈی سی فاؤنڈیشن، ادارۃ الحرمین الاسلامیہ کراچی ،البرہان ٹرسٹ، الخیر ٹرسٹ،انصار الاسلام، اخوت اور المدرار انسٹیٹیوٹ کی طرح کئی ادارے دن رات انتھک محنت کرکے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک مقام پر راشن تقسیم کرنے کے بعد رجوع الی اللہ کی تلقین کی گئی، ٹوٹے دلوں پر مرہم رکھا گیا اور اس بات کی یقین دہائی کروائی گئی کہ ہم صرف ذریعہ ہیں۔ اصل رازق اللہ تعالی ہے۔ یہ آپ کا ہی حصہ ہے جو ہم نے آپ تک پہنچایا ہے۔اس نے کل بھی بھوکا نہیں رکھا تھا، آج بھی آپ کھالیں گے کل بھی وہ ہی ذات رزق عطا کرے گی۔
Flood Relief Camps
معروف مذہبی سکالر "حافظ ذیشان یاسین صاحب" کی دوسری کتاب "پانی کے مسائل وسائل اور شرعی احکام" شائع ہوئی تو اس وقت حالات سنگین تھے، ملک سیلاب کی وجہ سے ڈوبا ہوا تھا۔
موصوف نے فوری اعلان کر دیا کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن سیلاب زدگان کی مدد کرنے والوں کے لئے عطیہ ہے۔ یہ کتب بینی کی فروغ کے لیے ایک اچھا قدم تھا، کہ کتاب دوست مدد کرکے کسی معتبر فلاحی تنظیم کو رقم بھیج کر رسید کی تصویر بھیجیں اور کتاب اپنے گھر کی دہلیز پر موصول فرمائیں، ڈاک خرچ بھی مصنف خود برداشت کرے گا۔
یہ صرف وہ واقعات ہیں، جو میری نظر سے گزرے اور نہ جانے اس طرح کے کتنے واقعات ہوں گے اور کس کس طرح لوگوں کی مدد کی گئی ہوگی؟
غرض ہر شخص دو کلو چاول کی اس مہم کے ساتھ مزید ضرورت کی اشیاء جمع کرنے، دواؤں اور امدادی سامان پہنچانے، رقم جمع کرکے سیلاب زدگان کی بحالی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے لگا۔
سوا تیرے کہاں جائیں کدھر جائیں کسے ڈھونڈیں 
مدد کرنے کی طاقت بھی ہے تیرے دست قدرت میں
اگر آپ نے ابھی تک سیلاب زدگان کی مدد کے لیے رقم ہدیہ نہیں کی تو جلد ہی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ رقم اپنے بھروسہ مند افراد کو جمع کروائیں، جو حقیقتا سیلاب زدگان کی مدد کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔
رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
”جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے تو اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری فرماۓ گا۔“ (صحيح البخاري : 2442)
آمین اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک ان سب کی مشکلات کو دور فرمادیں اور مدد کرنے والوں کو اجر عظیم عطا فرمائیں، اور تمام امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
12_ستمبر_2022

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی