علامہ اقبال کا نظریہ خودی

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
علامہ اقبالؒ کا فلسفہ خودی سورۃ الحشر آیت نمبر 19 سے ماخوذ ہے۔ حدیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ "جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔"
خودی کا لفظ اس فلسفے میں اردو و فارسی کے عام معانی تکبر و غرور، خود پسندی اور انا جیسے منفی الفاظ میں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ علامہ اقبالؒ نے اس کو خود اعتمادی، خود شناسی، خود داری اور اپنی عزت نفس کا احساس جیسے مثبت معنی میں استعمال کیا ہے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
خودی دراصل دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا نام ہے۔
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ ایک مسلمان کی پہچان میں خودداری اور مضبوطی ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تاکہ مسلمان کبھی ان اوصاف خودی سے عاری نہ ہو۔ اس لیے علامہ اقبالؒ خودی کی سر بلندی کی مسلسل تعلیم دیتے رہے۔ مسلمان کی مکمل طرز حیات میں اس کا رویہ ان اوصاف کی نفی نہ کرے۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی ہی حقیقت ہے اور ایک کامل شخصیت بھی۔ بلکہ وہ اسے ایک مستقل اور ایسی جدوجہد قرار دیتے تھے، جو ہر حال میں قائم رہے۔ یوں سمجھ لیجیے اقبالؒ کے نقطہ نظر سے خودی زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سب کچھ ہے۔
ڈھونڈتا رہتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
علامہ اقبالؒ نے خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے تین مراحل کے ذریعے اس کی تربیت کو ضروری امر قرار دیا ہے۔ جب انسان اطاعت الہی اور ضبط نفس جیسے عظیم مراحل سے گزر جاتا ہے تو نیابت الہی کے درجے پر فائز ہوجاتا ہے۔ یہ عطیہ ربانی کے ساتھ مسلسل جدوجہد اور عمل پیہم بھی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے فیضان الہی خودی کی رضا سے چلنے لگتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ختم شد

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی