جب وہ دونوں غار میں تھے

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
عنوان: ثانی اثنین اذھما فی الغار
الفاظ کی تعداد: 1028
ناعمہ آج بہت خوش تھی۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن کا حکم دوبارہ جاری کردیا تھا۔ اسے الیکشن دیکھنے اور ووٹ ڈالنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن اب تک وہ اس عمر کو نہیں پہنچی تھی کہ ووٹ ڈال کر اپنا حق استعمال کرسکے۔ اس بار اس نے اپنی والدہ سے وعدہ لیا تھا کہ وہ جب ووٹ ڈالنے جائیں تو اسے بھی ساتھ لے کر جائیں۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ ووٹ کس طرح ڈالا جاتا ہے۔
........
صبح ناعمہ جلدی اٹھ گئی تھی۔ اس نے اپنی والدہ کے کاموں میں ہاتھ بٹایا اور تیار ہوگئی۔
ساجدہ بیگم نے ناعمہ کا ہاتھ پکڑا اور گھر کے قریب ہی منتخب شدہ پولنگ اسٹیشن کی جانب روانہ ہوگئیں۔
ماں بیٹی پولنگ اسٹیشن کے قریب پہنچی تو ایک خاتون کو کرسی پر بٹھا کر لایا جارہا تھا، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ عمر رسیدہ خاتون بیمار ہونے کی وجہ سے چل نہیں سکتیں۔
ناعمہ کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس بیماری اور محتاجی کے عالم میں بھی انہیں ووٹ ڈالنے آنا پڑا؟
ناعمہ کی امی نے جاکر اپنا ووٹ کاسٹ کردیا اور ناعمہ کھڑی کبھی اس خاتون کو دیکھتی تو کبھی اپنی والدہ کو ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھتی۔ جیسے ہی ساجدہ بیگم پلٹ کر واپس آئیں تو ناعمہ نے بے اختیار سوال کر ڈالا: " امی! ووٹ ڈالنا کیوں ضروری ہے؟"
ساجدہ بیگم نے جواب دیا: ووٹ کی شرعی حیثیت ایک شہادت یا گواہی کی سی ہے۔
’’جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اُس میں اِس کو بھی حصہ ملتا ہے اَور بر ی سفارش کرتا ہے تو اُس کی برائی میں اِس کا بھی حصہ لگتا ہے۔‘‘ (النساء)
ناعمہ نے سوال کیا: سفارش اچھی اور بری بھی ہوتی ہے؟
ساجدہ بیگم نے اسے بتایا: اچھی سفارش یہ ہے کہ قابل اَور دیانت دار آدمی کی سفارش کی جائے، جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر اَدا کرے۔ بری سفارش یہ ہے کہ نااہل ،نالائق، فاسق، ظالم کی سفارش کر کے اُس کو خلق ِخدا پر مسلط کرے۔
ناعمہ نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا تو کیا ہم یہاں سفارش کرنے آئے ہیں؟
جوابا ساجدہ بیگم نے کہا: نہیں! اس کے علاوہ ووٹ ایک امانت بھی ہے اور اس کا صحیح استعمال دینی فریضہ ہے۔
ووٹ استعمال کرنے کا صحیح مقصد باکردار لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے، جو ملک کے خیر خواہ ہوں۔ ملکی مفاد، ملک کی بقاء اور استحکام کا درد رکھنے والے ہوں اور شریعت کا نفاذ ان کی اولین ترجیح ہو۔
وہ اتنا ہی کہہ پائی تھیں کہ اچانک ایک ریلی وہاں سے نکلی۔ ہر شخص نے وہاں پر "صدیق ہمارا ہے" کا نعرہ بلند کیا تھا۔ انہوں نے بینر ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے، جسے ناعمہ نے باآسانی پڑھ لیا تھا۔
نعرہ سنتے ہی ماں بیٹی یادوں میں کھو گئیں۔ ساجدہ بیگم  کے ذہن نے تاریخ کے دریچوں کو کھولا۔ لیکن ان کی آنکھوں میں وہ سہانا منظر تھا جو وہ کچھ دن قبل دیکھ کر آئی تھیں، جہاں صدیق اکبرؓبھی سنہری جالیوں کے پیچھے نبیﷺ کے ساتھ آرام فرما ہیں۔
جب کہ ناعمہ کسی اور ہی تخیل میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر مختلف آثار نمایاں ہوئے اور وہ بڑبڑانے لگی کہ "اس شخص کے لیے نعرے لگائے جارہے ہیں، جس نے حضرت علی ؓسے خلافت چھینی تھی۔" ساجدہ بیگم نے اس کے کہے ہوئے کلمات کو سنا تھا، اب وہ چوکنا ہوگئیں تھیں۔ مگر وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھیں کہ یہ غلط معلومات اس تک کیوں کر اور کیسے پہنچی؟
.........
ناعمہ کا ذہن ابھی کچا تھا، مگر وہ سمجھدار تھی تو ساجدہ بیگم نے اپنی بات شروع کی۔
تمام صحابہ کی عظمت و محبت ہر شخص کے دل میں ایسی ہی ہونی چاہیئے، جیسے ہمارے رسول ﷺ کے دل میں تھی۔
صحابہ کی عظمت کو قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے اور ان کے راستے پر چلنے یا پیروی کرنے والوں کو ہدایت یافتہ کہا گیا ہے۔ ان اصحاب کی عزت یا کردار پر حرف نہ آنے دینا بھی ایک مسلمان کی نشانی ہے۔
ناعمہ کے ماتھے سے اب شکن کم ہوگئے تھے مگر ابھی اس کا ذہن صاف نہیں ہوا تھا۔ اس نے اپنی والدہ سے سوال کیا امی قرآن میں کس جگہ پر یہ بات بیان ہوئی ہے؟
ساجدہ بیگم نے اسے ترجمے والا قرآن اٹھا کر لانے کو کہا تو دوڑتی ہوئی گئی اور فورا وضو کرکے قرآن لے آئی۔ ساجدہ بیگم نے اسے کہا: اب قرآن کی یہ آیت کھولو۔
’’پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں، جس طرح تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں۔ (سورۃ البقرۃ: 137)
اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے۔ سورۃ التوبة: 100
ساجدہ بیگم اسے نرمی سے سمجھارہی تھیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
لیکن امی حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی خلیفہ اول کیوں تھے؟ 
ناعمہ کے درمیان میں سوال کرنے پر ساجدہ بیگم نے جواب دیا: حضورﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اس جانب اشارات کر دیے تھے۔
یہ ہی نہیں بلکہ آپؓ نے حضور ﷺ کی زندگی میں ہی سترہ مرتبہ نمازیں پڑھائی، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد نبوی میں جتنے بھی دروازے کھلتے ہیں سب بند کر دیے جائیں سوائے ابوبکر کے دروازے کے۔
اسی طرح جب رسول ﷺ کی وفات کے بعد جب خلافت کا مسئلہ کھڑا تو صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے صدیق اکبرؓ کی بیعت کی تھی۔ جس بات پر صحابہ کی جماعت متفق ہو اسے اجماع صحابہ کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ اعتراض قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علیؓ کی جگہ پر صدیق اکبرؓ نے قبضہ کیا تھا۔
اب بتاؤ شیطان کی طرف سے ڈالا گیا وسوسہ ختم ہوا؟
ناعمہ: جی امی! اب مجھے تسلی ہو گئی کہ واقعتا صدیق اکبرؓ برحق خلیفہ اول ہیں۔
ساجدہ بیگم اس اعتراض کو ناعمہ کے دل سے مکمل طور پر ختم کردینا چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے پوچھا: ہجرت کے وقت نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کون تھا؟
ناعمہ نے تسلی بخش جواب دیا: حضرت ابو بکر صدیقؓ
ساجدہ بیگم نے اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: حضرت ابو بکر صدیقؓ سے متعلق قرآن میں خاص آیات بھی نازل ہوئی ہیں۔
ناعمہ نے دلچسپی سے پوچھا: امی! کیا ذکر ہے؟
ساجدہ بیگم نے جواب دیا: ثانی اثنین اذھما فی الغار
اس کے علاوہ بھی مختلف مقامات پر ذکر ہے اس پر ہم پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے۔ اتنا کہہ کر ساجدہ بیگم اپنے کام نمٹانے لگیں اور ناعمہ اس آیت کو تلاش کرنے میں مصروف ہوگئی۔
ختم شد
18_جنوری_2022
25_جمادی الثانی_1445 

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی