تبصرہ کتاب جب زندگی شروع ہوگی (ایک ناقامل فراموش داستان زندگی کو بدل دینے والی کہانی)

تبصرہ نگار: سیدہ حفظہ احمد

تبصرہ کتاب :جب زندگی شروع ہوگی   (ایک ناقامل فراموش داستان زندگی کو بدل دینے والی کہانی)

مصنف: ابو یحیٰ

کتاب کا بنیادی مقصد: آخرت پر یقین پیدا کرنا

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر یوم آخرت کا ذکر کیا گیا ہے مگر افسوس صد افسوس ہم میںسے بیشتر افراد اس دن کی حیثیت کو پس پشت ڈال کر آج اور اگلے دن کو جینے، اسے خوب صورت بنانے میں اس قدر محو ہیں کہ آخرت کے دن کو بھول بیٹھے ہیں۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دہی کرتے ہیں، غرض ہم میں ہر ہر برائی سما چکی ہے۔ ہم آخرت کے دن سے بلا خوف و خطر ہوکر من موجی بنے پھرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم فانی اور رنگین دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر محو ہوچکے ہیں کہ اس دن کی تیاری کو پس پشت ڈال چکے ہیں یا پھر جنت کو اور آخرت کی کامیابی کو اپنا حق سمجھتے ہیں؟ یہ سوال ہم سب کو خود اپنے آپ سے کرنا چاہیئے اور پھر اس کا جواب تلاش کرکے دیکھنا چاہیئے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟

یہ کتاب"جب زندگی شروع ہوگی" اس دور فتن میں ایک بیش بہا انعام ہے۔ خود مصنف کا کہنا ہے کہ اس کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ "اردو ادب کے قارئین عام طور پر جاسوسی، رومانوی، تاریخی اور معاشرتی حوالوں سے لکھے گئے ناولوں سے ہی واقف ہیں ،جو روایتی طور پر لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ ناول نگاری کا دائرہ در حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے، ہر ایک ناول کا پلاٹ، اس کی اٹھان، کردار، واقعات اور مکالموں کا انحصار ناول نگاری کی اس خاص صنف پر ہوتا ہے، جس پر وہ ناول مبنی ہوتا ہے۔" یہ ایک غیر روایتی ناول ہے، مگر ایک فکشن ہی ہے۔ جیسا کہ ہر ناول فکشن ہی ہوتا ہے ،جو تصورات کی دنیا میں لے جاتا ہے اگرچہ بنیاد حقیقت کی زمین پر ہی رکھی جاتی ہے۔

یہ ناول ایک فکشن ہے مگر اس کی بنیاد دنیا کی سب سے بڑی حقیقت "آخرت" پر رکھی گئی ہے جس کو ایک نہ ایک دن ظاہر ہونا ہے اور کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی طرح ہمیں بھی اس کہانی میں شامل ہونا ہی پڑے گا۔

مصنف کا کہنا ہے کہ اس ناول کا مقصدغیب میں پوشیدہ امکانات کی دنیا کو زندہ حقیقت بنا کر عام لوگوں کے سامنےلانا ہے۔

یہ بہت نازک کام ہے کیوں کہ اس کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے موجودنہیں اور اس مقصد کے لیےتخیل کے گھوڑے بے لگام نہیں دوڑائے جاسکتے۔لیکن احادیث مبارکہ کے ذریعے جو تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں اس کی بنیاد پر ایک منظر کشی اس ناول میں کی گئی ہے۔

اس ناول کو پڑھ کر لوگوں پرغیر معمولی اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں ،ان میں سےکئی افراد کے لیےجھنجھوڑ کر رکھ دینےاور زندگی بدل دینے والا تجربہ سامنے آیا ہے۔

یہ کتاب پندرہ ابواب پر مشتمل ہے۔جس میں ہر باب پر مختصر تبصرہ اور اہم نکات شامل کیے گئے ہیں تاکہ اس کتاب کی خوب صورتی کا اندازہ ہر قاری پڑھنے سے قبل لگالے۔ اس ناول میں اہم کردار عبداللہ نام کے شخص کا ہے جو آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب انسان ہے اور اللہ کا پسندیدہ بندہ ہے۔

"روز قیامت"

اس باب میں قیامت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں لوگ نفسا نفسی کے عالم میں ہیں۔ اس وقت ہر ظالم، جابر، متکبر اور غافل کا دل لرز رہا ہے۔ اہل زمیں کی مہلت ختم ہوچکی ، تیاری کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اور اب امتحان دینے کا وقت آگیا ۔اسرافیل علیہ السلام کا صور پھونکنا،اللہ سے ملاقات کی جانب نیکوکاروں کاجمع ہونا۔

اس باب میں عبداللہ کی اللہ سےپہلی ملاقات کی کیفیت اور انعام کے طور پرصالح (فرشتے) کو عبد اللہ کے ساتھ کرنے کی وجہ بتائی گئی ہے۔ قیامت کے اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے،جب ہر شخص تنہا ہوگا۔ 

دوسرے باب"عرش کے سائے میں" واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح ہر شخص اپنی پیشانی سے پہچانا جائے گا کہ وہ دنیا میں کیسے اعمال کرتا رہا ہے؟پھر اسی مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔

اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ چوں کہ  اصل مصور مالک ذوالجلال ہے۔ اس دن کوئی شخص ایسا نہیں نظر آئے گا جیسا وہ دنیا میں دوسرے انسانوں کو نظر آتا تھابلکہ وہ ایسا ہی نظر آئے گا جیسا وہ پروردگار کو نظر آتا تھا۔  بظاہر وہ دنیا میں جیسا بھی دکھتا ہو مگر آخرت میں اگر وہ کامیاب شخص ہے تو اللہ تعالی اسےایسی خوب صورتی سے نوازیں گے کہ وہ شخص خود اپنےآپ کو دیکھ کر حیرت کرے گا۔

مقام اعراف کا نقشہ اور اس کی خصوصیات  اس واضح انداز میں کھینچی گئی ہیں کہ ہر شخص خود کو وہاں محسوس کرنے لگے گا۔

رسول اللہ ﷺ کا نیکو کاروں کو(عبد اللہ کو) آب کوثر پلا کر سیراب کردینا تاکہ وہ کسی گرمی کی حدت میں نہ آسکے۔ لوگوں کو آب کوثر کی حقیقیت اور اس کے اثرات  دلکش انداز میں بیان کیے گئے ہیں کہ ہر شخص اس کو  پینے کا طلبگار بن جائے گا ان شاءاللہ

"میدان حشر"  

اس باب بہت سی  باتوں میں سے اہم باتیں  یہاں درج کی جاتی ہیں ؛

علم صرف اس لیے ہوتا ہے کہ شخصیت درست بنیادوں پر تعمیر ہوسکے۔

آخرت میں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہوگی۔

سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہوگی کہ میرا کیا بنے گا؟

کوئی بھی حساب و کتاب سے قبل اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا۔دنیا کی نعمت حاصل کرلینے پر یہ سمجھ لینا کہ ہم خسارے میں نہیں ہیں ، دراصل نفع و نقصان کا فیصلہ آخرت کے دن کیا جائے گا۔ پیر صاحب یا کوئی عالم کی کوئی گارنٹی کام نہیں آئے گی بلکہ ہر شخص کا فیصلہ اس کے عقائد و اعمال پر کیا جائے گا۔

اسی طرح ایک  مکالمہ نقل کیا جاتا ہے:

"زندگی اچھی گزاریں یا بری ، مرنا تو ہمیں ہےپتہ نہیں آخرت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟

بے فکر رہو کچھ نہیں ہوگا، وہاں بھی ہم ٹھاٹ سے رہیں گے، میرے پاپا کے پیر صاحب کے سامنے تو اللہ میاں بھی کچھ نہیں بول سکتے۔

کلمہ کفر مت بکو۔ اور اللہ میرا کہاں رہا ہے!جب  میں اللہ کا نہیں رہا تو وہ میرا کیسے رہے گا؟ یہ جملہ کہتے ہوئے جمشید کا لہجہ بھرا گیا اور اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔"

جب ہم اللہ کے نہیں ہوں گے تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہمارے ہوسکتے ہیں؟ اس جملے کو پڑھ کر ذرا رک کر ہم اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کریں کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے ہیں؟

دنیا وآخرت کی کامیابی کا راز لوگوں کو نہیں خدا کو خوش کرنا ہے۔

"ناعمہ"  اس باب میں بہت سے نکات ایسے ہیں جنہوں نے دل کو چھوا ہے:

جو خدا سے سودا کرتا ہےوہ کبھی نقصان نہیں اٹھاتا۔

جو پچھلی دنیا(فانی دنیا) میں پانے سے رہ گئےان کا صبر بہترین بدلے کا مستحق ہے۔

اعزاز کی بات تو خدا کی بندگی کرنا ہے،ا س کے بندوں کو بندگی کی دعوت دینا ہے۔

اللہ نہیں ہارتا اللہ والے بھی نہیں ہارتے، وہ دنیا میں پیچھے رہ سکتے ہیں مگر آخرت میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتے ہیں۔

انسانوں کی دنیا میں رقیب سے حسد کیا جاتا ہےمگر خدا کی دنیا میں رقیب بھی محبوب ہوتا ہے۔

دنیا آزمائش ہے اس لیے یہاں مثبت جذبوں کے ساتھ منفی جذبے بھی رکھے گئے ہیں ۔ یہ منفی جذبے انسانی شخصیت کے اندر سے اٹھتے ہیں  لیکن ہر مومن مرد وعورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر طرح کے منفی ماحول اور حالات میں رہنے کے باوجود اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات پر قابو پائے۔

تعریف کا مستحق صرف اللہ ہے،  جو ہر خوب صورتی کا خالق ہے۔

دنیا کا ہر امتحان انسان نے اپنی مرضی سے چنا تھا۔

"دو سہیلیاں"

اس باب میں  دو سہیلیاں کی حالت کا میدان حشر میں نقشہ کھینچاگیا ہے کہ وہ کس سختی سے گزری پھر ان میں سے ایک جو اللہ پر یقین رکھتی تھی وہ کامیاب ہوئی اور دوسری ناکام۔

اس باب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسان جیسی صحبت اختیار کرتا ہے ویسا ہی اثر پاتا ہے۔

 اولاد ہر دور میں والدین کو محبوب رہی ہے لیکن زمانے کی بیشتر اولادوں کو بگاڑنے والے خودان کے ماں باپ ہیں جو ان کی آخرت سے بے پرواہ ہیں۔   

ایمان زبان سے کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں  بلکہ خدا کی ہستی کو اپنی زندگی بنالینے کا نام ہے۔ رسمی عبادت خدا کو مطلوب نہیں اسے قلب کی دینداری چاہیئے، اسے چند بے روح سجدوں کی ضرورت نہیں اسے ایک سچا خدا پرست بندہ چاہیے۔

"آج بادشاہی کس کی ہے؟"

اس باب میں لیڈروں اور گمراہ کرنے والے رہنماؤں پر سختے کے بارے میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ان میں سے ہر شخص ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے میں مصروف ہیں ۔ ساتھ ظالموں سرکشوں کا انجام بتلایا گیا ہے، اہل جنت کے ساتھ ہونے والے مقاملات کی بھی آگاہی دی گئی ہے۔

"حضرت عیسیؑ کی گواہی"

ا س باب میں عیسائیوں کے جھٹلانے  اور ان کے شرک  کا پول کھلتے ہوئےدکھایا گیا ہے، جس کا الزام وہ حضرت عیسیؑ پر لگاتے ہیں ۔

"حوض کوثر پر"

اس باب میں ایک مختصر تحریر استاد فرحان کے نام سے دی گئی ہے جو  دنیا میں ایک نیک شخص معلوم ہوتے تھے مگر ان کی نیکی  دکھاوے اور نام و نمود کے لیے تھی جس کی جزا انہیں  دنیا میں دے دی گئی ۔۔ جس کا ایک جملہ یہ بھی تھا ،" بد نصیب وہ نہیں  جسے یہ فانی دنیا نہیں ملی بد نصیب وہ ہے جسے ابدی دنیا نہیں ملی۔"

"قوم نوح اور دین بدلنے والے"

  اس باب میں  قوم نوح کے جھٹلانے اور امت محمدیہ کےصالحین کی گواہی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

"حساب کتاب اور اہل جہنم"

 اس باب میں جن باتوں کا ذکر ہے اس کا اندازہ نام سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ الغرض  اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس وقت انسان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے، انسان ایک مہلت مانگے گا مگر اس وقت انسان کی ہر بات بے سود ہوگی۔

اللہ تعالی فرمائیں گے: "اے بے وقعت انسان! جس وقت تو انسانوں پر ظلم کرتا تھا ، اس وقت بھی تو میرے سامنے ہوتا تھالیکن میں نے تجھے مہلت دی تو نے اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا تو سمجھا تھا کہ تجھے میرے حضور پیش نہیں ہونا؟"

 لوگ سارے زندگی کیریئر، اولاد ، جائیدادوں پر انویسٹ کرتے رہتے ہیں، کاش!ہم  لوگ آج کے دن اس ( آخرت ) کے دن کے لیے بھی انویسٹ کرلیں تو بدحال ہونے سے بچ جائیں ۔

" آخرکار"

 اس باب کے مطابق حساب کتاب کا وقت قریب آچکاہے اور اس وقت نجات کا پیمانہ ایک ہی ہے،ایمان اور عمل صالح۔ انسانوں کی شفاعت بہرحال ہوگی لیکن وہ بھی اسی بنیاد پریمان اور عمل ھالیکن می یعنی ایمان اور عمل صالح نہ کہ گمراہی۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن عمل صالح کی بات ہی نہ کرتا۔ صرف ایمان پر ہی نجات ممکن نہیں بلکہ ساتھ میں عمل صالح بھی ضروری ہے۔ باقی معافی اللہ کی رحمت ہی سے ملتی ہے۔

 " انسانوں کی  سب سے بڑی بد نصیبیاں رہی ہیں  ایک یہ کہ حشر کے دن کا مرکزی خیال حساب کتاب تھا مگر لوگوں نے اسے شفاعت کا موضوع بنادیا ۔ دوسرا یہ کہانسانی زندگی میں مرکزی حیثیت ارحم الراحمین کی ہےجبکہ لوگوں نےغیر اللہ کو مرکزی خیال بنادیا۔

" بنی اسرائیل اور مسلمان "

 اس باب میں نحور اور شائستہ کی عبداللہ اور صالح کے درمیان مزاحیہ گفتگوسے  ناول کا لطف دوبالا کیا گیا ہے۔

" ابدی انجام کی طرف روانگی"

اس باب میں سب کا حساب کتاب ہونے کے بعد ہر شخص کو ا س کی منزل کی جانب روانہ کیا جاتا ہے۔

" جنت کی بادشاہی میں داخلہ" اس باب ہر شخص کو اس کا مقام سونپا جانے کا بیان  ہے۔جس میں اس بات کو واضح کیا گیا ہےکہ جنت میں ہر شخص کی خواہش لمحے بھر سے بھی پہلے پوری ہوجائے گی۔ وہاں کا منظر ، وہاں کا سماں دنیا کی خوب صورتی کے آگے کچھ بھی نہ ہوگا۔ 

ان نکات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ ناول انسان کو کس طرح کھینچ کر اپنے رب کی جانب متوجہ کرتا  ہے کہ ابھی وقت ہے اپنے رب کو راضی کرلیا جائے ،اس کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے۔

 بس ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے  اور مال و اسباب کی ریس لگانے والو!مقابلہ کرنا ہے تو اس دن کی سرفرازی کے لیے مقابلہ  کرو، ریس لگانی ہے تو جنت کے حصول کے لیے لگاؤ۔ منصوبے بنانے ہیں تو جہنم سے بچنے کے لیے منصوبے بناؤ۔ پلاٹ، دکان ، مکان ، بنگلے ، اسٹیٹس ، کیریئر، گاڑی ، زیور اور لباس فاخرہ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے والو!دنیا کے ملنے پر ہنسنے اور اس کی محرومی پر رونے والو!ہنسنا ہے تو جنت کی امید پر ہنسو اور رونا ہے تو جہنم کے اندیشے پر رویا کرو۔ مرنا ہے تو اس دن کے لیے مرو اور جینا ہے تو اس دن کے لیے جیو۔۔۔ جب زندگی شروع ہوگی کبھی نہ ختم ہونے کے لیے۔

 بس اے انسانو! اس دن کی تیاری کرو جب زندگی ہوگی موت ختم ہوجائے گی، جوانی ہووجہ کرنے ککرنے کا پنل انسان کو کس چرگی بڑھاپا ختم ہوجائے گا، صحت ہوگی بیماری نہ ہوگی، امیری ہوگی غربت کا نام و نشان بھی نہ ہوگا،بس پھر ہمیشہ رہنے والی خوشیاں ہوں گی اور تمام دکھ ختم  ہوجائیں گے۔  پھی نہ کسی جنتی کو دنیا کا کوئی دکھ یاد ہوگانہ کسی جہنمی کو دنیا کا کوئی سکھ یاد رہے گا۔ دنیا تو بس ایک خیال ہے، خواب ہے،افسانہ ہے، سراب ہے،حقیقت تو جب شروع ہوگی جب زندگی شروع ہوگی۔ع ، سراب ہے،ہے، خخ دکھ یاد ہوگانہ کسی جہنمی کو دنیا کا کوئی سکھ یاد رہے گا۔ دنیا تو بس ایک

ختم شد

12-6-2023معلوم ہوتے تھے مگر ان کی نیکی  دکھاوے اور نام و نمود کے لیے تھی جس کی جزا انہی یر اتا ہےے گا۔کو اتھ سلوک کیا جائے گا۔

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی