تبصرہ کتاب فرزین نامہ

تبصرہ کتاب: سیدہ حفظہ احمد
کتاب کا نام: فرزین نامہ (سیکنڈ ایڈیشن)
مصنفہ: فرزین لہرا
ناشر: فہیم عالم
صفحات کی تعداد: 144
قیمت: 600 روپے
تبصرہ کتاب
اس کتاب کی تعریف بارہا سن کر دل میں اسے پڑھنے کا شوق دن بہ دن گہرا ہوتا جارہا تھا۔ بفضل اللہ تعالی اتنے کم وقت میں (اپریل تا اگست) اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو کر دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ میں بس ایک خاموش قاری بن کر تمام تبصرے دیکھتی رہی۔ چوں کہ گھر میں میرا ہم مزاج کوئی نہیں اور نصابی کتب کے علاوہ کوئی کتاب خریدنے پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا کرنا ہے اتنی کتابوں کا؟ اور میرے مطابق ایک مصنف کا اتنا حق بنتا ہے کہ اس کی لکھی گئی کتاب کو خرید کر ہی پڑھا جائے۔ اسی لیے کبھی کسی مصنف سے اس کی کتاب بطور ہدیہ مانگ کر اسے شرمندہ نہیں کیا۔
مگر کچھ مصنفین ایسے ہیں جنہوں نے بذات خود خود اپنی تخلیق کو تحفتا پیش کیا۔ جن میں سر عامر جٹ (معاشرہ اور میں) ذیشان یاسین بھائی (آداب اسباب و اختلاف) اور فرزین لہرا آپی (فرزین نامہ) شامل ہیں۔
میری عادت ہے کہ ہر کتاب کی خوشبو کو محسوس کرتی ہوں۔ ہر کتاب کی مہک دوسری کتاب سے مختلف ہوتی ہے۔ مگر اس کتاب کی خوشبو میں اتنی کشش ہے کہ قاری کو دور سے ہی اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔
مجھے لگتا ہے شاید اس کی دو وجوہات ہیں: ایک محبت اور خلوص کے ساتھ ڈوب کر لکھے جانے کی اور دوسرا محبت، خلوص اور دعاؤں کے حصار میں دیے جانے کی۔
فرزین آپی نے یہ کتاب مجھے میری زندگی کے پچیس سال مکمل ہونے پر تحفے میں پیش کی، جب ہی ان سے کتب میلہ کراچی ایکسپو سینٹر میں پہلی بار ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر بہت خوشی ہوئی، اس قدر خوب صورت جلد اور سرورق سے مزین یہ کتاب میرے دل کو لبھاتی تھی۔ چوں کہ اس کتاب کو پڑھنے کی دیرینہ خواہش تھی تو اس کتاب کو پاتے ہی پڑھنے کو دل مچلنے لگا، مگر کچھ ضروری مصروفیات آڑے آگئیں اور کتاب پڑھنے میں تاخیر کا شکار ہوگئی۔
اس کتاب پر پہلے بھی بہت سے نامور ادیب تبصرہ کرچکے ہیں اور محمود احمد مودی، حسنین جمال (مصنف ناول داڑھی والا)، ثمینہ طاہر بٹ (ڈرامہ نویس، کالم نگار)، احمد نعمان شیخ (نائب مدیر بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا)، ثناء شاہد، سجاد گل بیسالوی (فیملی میگزین، نوائے وقت)، سفیان علی فاروقی (چیئرمین تحریک ترویج اردو پاکستان)، عماد قاصر، قیصر علی، کاوش ہراج الپوی اور سیماب گل کے تبصرے اس کتاب میں بھی شامل ہیں۔
اسی ضمن میں کتاب سے لطف اندوز ہونے کے بعد چند ٹوٹی پھوٹی سطریں بطور تبصرہ میری جانب سے پیش کی جارہی ہیں۔
یہ کتاب کھٹی میٹھی چھبیس کہانیوں پر مشتمل ہے، جس میں دو نمایاں کردار پائے جاتے ہیں۔ ایک فرزین کا دوسرا کردار امی جی کا۔ فرزین بہت پوہڑ دکھائی گئی ہے، جب کہ امی جی فرزین سے بے انتہا تنگ۔
مصنفہ نے اس کتاب میں مختلف تجربات بیان کیے ہیں، جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وقت میں ہم سب کے ساتھ ضرور پیش آتے ہیں۔ مگر ان کو بیان کرنے کا ڈھنگ ہر ایک کو نہیں آتا۔ یہ ہی نہیں اکثر اوقات ہم بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں کہ کہیں لوگ مزاق نہ اڑادیں۔ مگر اس کتاب میں خود مصنفہ نے اپنے آپ کو موضوع بنا کر بڑے دل گردے کا کام کیا ہے۔ اس قدر شگفتہ اور منفرد انداز میں ان واقعات کو بیان کرکے کتاب کا حق ادا کیا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ یہ کتاب بہت کم وقت میں مقبول بھی ہوئی ہے کہ ہر قاری اسے پڑھ کر اپنے احساسات و جذبات بیان کیے بغیر نہیں رہتا۔
اس کتاب میں فرزین روز کوئی نہ کوئی کباڑا کرتی ہے، خاص طور پر کچن میں جب کہ امی جی اس کو کہتی ہیں کہ "تم کچن کیا سنبھالو گی؟ بہتر یہ ہی ہے کہ تم ایک الماری ہی سنبھال لو، جس کے کپڑے منہ تک آرہے ہوتے ہیں۔"
پہلی کہانی میں بریانی بنانے کی اجازت مانگتی ہے تو امی جی کا چٹ پٹا طعنہ ان الفاظ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے کہ سادے چاول تک بنانے نہیں آتے اور ان چاولوں کو ساسو اماں بریانی کے حلوے سے تعبیر دیتی ہیں۔
جب کہ پھر وہ براؤنیز بنانے کی اجازت لیتی ہے تو امی جی اسے کالے صابن کے ٹکڑے کہہ کر روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر پھر بھی وہ اپنے شوق اور پوہڑ پن کی مثالی حرکتوں سے باز نہ آتے ہوئے براؤنیز کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کرکے باہر سے براؤنیز آرڈر کرتی ہے مگر محترمہ کی یہ پول بھی کھل جاتی ہے۔
پھر جب  وہ دال بنانے لگتی ہے تو اس کی ریسپی بھی گوگل کرتی ہے۔ اس میں ٹماٹر کی جگہ کیچ اپ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے اور پھر ٹماٹر خریدنے کے لیے امی جی کو ہی اس کے بدلے پیسے دیتی ہے تاکہ مہنگے ٹماٹر ڈالنے کے لیے اسے مہیا کردیے جائیں۔
دوست ثناء جب اسے گر سکھاتی ہے تو وہ ان ٹپس کے بدلے پورے مہینہ کے راشن کا بیڑا غرق کردیتی ہے۔ تبھی اسے فسادن دوست کا لقب دیا گیا ہے۔
خوش فہمی کی انتہا پر پہنچتی ہے تو مالم جبہ پر ایک فین یا قاری کی آمد سمجھتی ہے، جو اسے آپی آپی کہہ کر پکار رہا ہوتا ہے۔ مگر یہ فین تو ہوا کے گھوڑے پر سوار اسکارف پن مانگنے آیا ہوتا ہے، وہیں وہ منہ بسور کر رہ جاتی ہے۔ اور امی جی ان ٹھکی ہوئی کیلوں میں سے ایک کیل سائل کو دے دیتی ہیں۔
پارک میں بھوکی ندیدی بن کر آنٹیوں کو کھاتا دیکھ کر وہ ان کو گھورتی رہتی ہے تو ترس کھا کر ایک آنٹی پانچ سو کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں۔ آنکھوں میں اندھیری اس وقت آتی ہے جب وہ گھر لوٹتی ہے۔
محترمہ کبھی شادی کے بعد بھی منگنی نہ ہونے کا دعوی کرلیتی ہے تو کبھی وہ "صنف آہن" کو دیکھ کر فوج میں جانے کا بھوت سوار کرلیتی ہے۔ مگر امی جی کا کہنا ہے کہ جس سے ایک الماری نہیں سنبھالی جارہی ہے اس جیسی لڑکیوں کو ہی تو فوج بھرتی کرے گی۔ اب اتنے برے دن آگئے کیا پاکستانی فوج کے؟
"ماسی نامہ" پڑھتے ہوئے میں نے تخیل قائم کرلیا تھا کہ یہ ماسی یقینا چورنی ہوگی جبھی اتنی چاپلوسیاں کررہی ہے مادام کہ۔ مگر اختتام میرے ذہن سے بہت پرے تھا یعنی اختتام نے حیران کردیا کہ ماسیاں اتنی شاطر بھی ہوسکتی ہیں؟
"ایاز اسٹور" کی کہانی میں محسوس ہوا کہ واقعی کسی اسٹور پر کھڑے ہیں اور ہماری باتیں کسی نے سن لی ہوں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہماری باتیں وہ شخص سن لیتا ہے جس کے بارے میں ہم بات کررہے ہوتے ہیں مگر اسے بیان کرنے کا انداز پڑھ کر انسان اپنے بتیسی نکالے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح مصنفہ نے معاشرے کی تلخ حقیقت کو بھی مزاحیہ انداز میں واضح کیا ہے "گولڈ میڈلسٹ" یا پڑھی لکھی لڑکیاں بھی عام لڑکیوں کی طرح ہی پستی ہیں، معاشرہ انہیں بھی چکی کی طرح باریک ہی پیستا ہے۔
"اندھا پیار" کہانی میں جوؤں کے تذکرے کی وجہ سے مجھے اپنے سر میں بھی سرسراہٹ محسوس ہونے لگی اور میں اب تک اس خوف میں جی رہی ہوں۔
"فیس بکی محبت" کو ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں پہاڑ جیسی اور گہری حقیقت کو بیان کردینے کا ہنر بھی مصنفہ کو خوب آتا ہے۔
"ست رنگی محبت" کے گہرے افسانوی انداز میں کوئی بھی ڈوبے بغیر رہ نہیں سکتا۔
"کم خرچ بالا نشین" خاص طور پر ان لڑکیوں کے لیے ہے جو براںڈز اور شو بازی کی دوڑ میں دوسروں کے ساتھ مل جاتی ہیں اور شوہر نامدار ایک دن ان سے تنگ ضرور آجاتے ہیں۔ ان کے لیے سستا اور کارآمد مشورہ اس کہانی میں بہترین طریقے سے دیا گیا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ امی کا دماغ بھی ان کاموں میں ایسے ہی چلتا رہا ہے اور اب ہمارا بھی چلتا ہے یعنی ان سے زیادہ بہترین مشورے اب ہم ان کو دیتی ہیں۔ یہ کہانی سب لڑکیوں کو ضرور پڑھنی چاہیئے۔ ارے نہیں! بلکہ لڑکے بھی اپنی بیگمات کو اس دوڑ سے چھٹکارا دلوانے کے لیے پڑھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
اختتامی کلمات کے لیے لکھی گئی تحریر "شکر الحمدللہ" مجھے بہت پسند آئی۔ اور میرے خیال سے چند ایک کہانی کو چھوڑ کر ہر تحریر یا کہانی اپنے اعتبار سے بالکل درست مقام پر رکھی گئی ہے۔
اس کتاب میں حس مزاح کو غالب رکھا گیا ہے، مگر اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پڑھا اور کولگیٹ کا اشتہار بن کر کتاب کو واپس رکھ دیا۔ بلکہ ہر کہانی کے اخیر میں کچھ نہ کچھ چھوٹا سا سبق ہلکے پھلکے انداز میں دیا گیا ہے یا پھر قاری کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑا گیا ہے۔ تاکہ سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
آج کے دور میں ہر شخص کے چہرے پر بارہ بجے ہوئے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے اس اداس دنیا سے باہر نکل آئیں تو آپ بھی اس کتاب کو پڑھ کر ضرور لطف اندوز ہوں۔ کچھ دیر کے ہی لیے سہی میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں آپ ہر غم بھلا بیٹھیں گے۔
مصنفہ کے لیے ڈھیروں دعاؤں اور تیک تمناؤں کے ساتھ.....
21_دسمبر_2022
کتاب کا نام: فرزین نامہ (سیکنڈ ایڈیشن)
مصنفہ: فرزین لہرا
ناشر: فہیم عالم
صفحات کی تعداد: 144
قیمت: 600 روپے 
اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے فیسبک پر سرچ کرکے انباکس کریں۔
@Farzeen Lehra
https://www.facebook.com/profile.php?id=100077410525244

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی